۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
مصاحبه با حجت الاسلام والمسلمین رضایی آدریانه

حوزہ/ اگر کوئی ایران کے شہر ساوہ سے خراسان جانا چاہتا ہے تو اسے رے اور تہران جانا چاہئے نہ کہ قم آکر اپنا سفر کو مزید طولانی کرے اور پھر یہاں سے تہران جائے۔ خاص طور پر جب کہ قم کے بعد کا سارا راستہ صحرا تھا اور اس وقت یہ راستہ خراسان جانے کے لئے قطعا بھی مناسب نہیں سمجھا جاتا تھا لیکن باوجود اس کے حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا فرماتی ہیں کہ مجھے "قم لے چلو" تو میری نظر یہ ہے کہ ان کے سفر کا مقصد ہی دراصل قم تھا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق 10 ربیع الثانی حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کے یومِ وفات کی مناسبت سے اور ان کی عظمت و مقام کے بیان میں قم المقدسہ میں حوزہ نیوز ایجنسی کے نامہ نگار نے حجت الاسلام محمد رضایی آدریانی کے ساتھ گفتگو کی۔ جسے خلاصۃً قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے:

کیا حضرت فاطمہ معصومہ (س) نے امام رضا (ع) کی وجہ سے ایران کا سفر کیا تھا؟

شہر قم المقدسہ اور اس کے مقام کے بارے میں کون سی روایات ذکر ہوئی ہیں؟

شہر قم کے مقام کے بارے میں چند روایات ذکر ہوئی ہیں جن کا بنیادی ماخذ تاریخ کی کتاب "تاریخِ قم" ہے اور مرحوم مجلسی اور دیگر علماء نے بھی اس کتاب سے روایات نقل کی ہیں۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ "پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، امیر المومنین اور امام حسین علیہا السلام کے حرم ہیں اور وہ ان کا نام ذکر کرتے ہیں اور اہل بیت علیہم السلام کا بھی ایک حرم ہے اور وہ "قم" ہے"۔ یا ہمارے پاس روایات ہیں کہ جن میں اس زمین کے چند نکات کی اہمیت بتائی گئی ہے خواہ آپ وہاں ایک رات ہی کچھ پڑھیں،(عبادت کریں)ان نکات میں سے ہی ایک شہر قم ہے۔ ان روایات کا ماخذ کتاب "تاریخِ قم" ہے جو چوتھی یا پانچویں صدی میں لکھی گئی اور اس میں ایسی روایات جمع کی گئی ہیں جو قم کی فضیلت میں وارد ہوئی ہیں۔ شہر قم کے پسِ منظر میں اگر دیکھیں تو یہ شہر 93 یا 95 ہجری کے درمیان اس شہر میں خاندانِ اشعری کی آمد سے ہے۔

حضرت امام سجاد علیہ السلام کے اصحاب میں سے ایک "سعید ابن جبیر" نامی شخص 83 ہجری میں حجّار اور بنی امیہ کے خلاف قیام کرتا ہے لیکن اس کا قیام شکست کھا جاتا ہے اور سعید ابن جبیر وہاں سے فرار ہو کر 10 یا 12 سال تک اصفہان میں پناہ لیتا ہے۔ اس دوران سعید ابن جبیر قم آتے اور مسجدِ جمکران میں عبادت کیا کرتے کہ جس سے پتا چلتا ہے کہ اس سے پہلے بھی یہ عمل انجام دیا جاتا تھا۔ قم کے آثارِ قدیمہ میں بھی جمکران کے ہی آثار موجود ہیں۔

کیا حضرت فاطمہ معصومہ (س) نے امام رضا (ع) کی وجہ سے ایران کا سفر کیا تھا؟

حجّاج نے اسی قیام کی وجہ سے شیعہ نسل کشی اور قتلِ عام شروع کر دیا اور جو اس کے ظلم سے بچ سکتے تھے وہ وہاں سے فرار کر جاتے ہیں۔ حجّاج نے اشعری قبیلے کو کوفہ سے نکلنے کے لیے تین دن کی مہلت دی لہذا وہ وہاں سے ہجرت کر کے بصرہ اور اہواز کی طرف چلے جاتے ہیں اور پھر وہ زاگرس کے پہاڑوں کو عبور کرتے ہوئے قم پہنچ جاتے ہیں۔ اس وقت "دیلمی قبائل" چھوٹے شہروں پر حملہ کیا کرتے اور لوٹ مار کیا کرتے تھے۔ اشعری قبیلے کے افراد جو کہ خود جنگجو بھی تھے جب وہ شہر قم میں پہنچتے ہیں تو اس علاقے کے مکینوں نے ان سے کہا کہ اگر "وہ دیلمیوں وغیرہ کے ضرر سے انہیں نجات دیں تو وہیں آباد ہوسکتے ہیں"۔

یہ اشعری قبیلہ شیعہ مذہب کی طرف مائل تھے لیکن ان کا جھکاؤ کوئی خالص مذہبی نہیں تھا۔ اس قوم میں "قیس ابن رمانہ اشعری" نام کا ایک شخص تھا جس کے بارے میں تاریخ میں ملتا ہے کہ وہ پہلا شخص تھا جو حضرت امام سجاد علیہ السلام کی امامت کے اواخر میں ان کے پاس گیا اور خالص شیعہ مذہب کی تعلیم لے کر اس علاقے میں واپس آیا۔

وہ 93 ہجری میں اس علاقے میں آباد ہوئے اور 95 ہجری میں امام سجاد علیہ السلام کی شہادت واقع ہوتی ہے۔ پھر وہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے زمانے میں زیادہ ظاہر نہیں ہوئے۔

قیس ابن رمانہ کہ جن کی علمی، ثقافتی اور عقیدتی صلاحیتوں کو امام علیہ السلام کی خدمت میں رہ کر تقویت ملتی ہے، وہ قم جاتے ہیں اور وہاں ایک تغیر و تبدیلی کو ایجاد کرتے ہیں لیکن اس تبدیلی کو اپنی جگہ بنانے میں 100 سال کا عرصہ لگ جاتا ہے۔

کیا حضرت فاطمہ معصومہ (س) نے امام رضا (ع) کی وجہ سے ایران کا سفر کیا تھا؟

حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا نے ایران جانے کا فیصلہ کیوں کیا؟

جیسا کہ ہم نے قم کے حالات کے پس منظر میں بیان کیا کہ کس طرح اشعری قبیلہ اس علاقہ میں آتا ہے اور یہاں کے باسیوں کا ائمہ علیہم السلام سے رجوع کرنا اور پھر اس علاقہ کا ایک شیعہ خطے میں تبدیل ہو جانا وغیرہ۔

اب یہاں مہم موضوع امام رضا علیہ السلام کا خراسان کا سفر ہے۔ مامون چونکہ اپنے بھائی امین کی نسبت دوسرے درجے کی شخصیت تھا کیونکہ اس کی ماں عرب نہیں تھی لہذا اس نے خانہ جنگی میں امین کو شکست دی اور اب اقتدار میں آنے کے بعداسے معاشرے اور بنی عباس دونوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک سیاسی کھیل کھیلنے کی ضرورت تھی۔ مامون ایک انتہائی ماہر سیاسی اداکار صفت اور پیچیدہ فطرت انسان، ذہین اور چالاک آدمی تھا۔ اس معلوم تھا کہ گذشتہ زمانے سے ہی لوگوں کے دلوں میں اہل بیت علیہم السلام کی کتنی محبت ہے اور یہ کہ وہ ہمیشہ ان ہستیوں کی طرف مائل رہے ہیں۔

کیا حضرت فاطمہ معصومہ (س) نے امام رضا (ع) کی وجہ سے ایران کا سفر کیا تھا؟

وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ بنو امیہ نے سو سال تک اہل بیت علیہم السلام کو سرکوب کیا اور ہمیشہ انہیں دباؤ میں رکھا تھا اور اسی طرح عباسیوں نے 70 سال تک اہل بیت علیہم السلام سے ہر قسم کا مقابلہ اور ان پر مظالم ڈھائے۔ جب مامون نے دیکھا کہ ان حربوں کا ان میں سے کسی کو بھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں ملا تو اس نے ایک نیا کھیل کھیلنے کا فیصلہ کیا اور امام رضا علیہ السلام کو خلیفہ بننے کی پیشکش کی۔ امام علیہ السلام نے قبول نہیں کیا تو انہیں قبول نہ کرنے پر قتل کرنے کی دھمکی دی۔ اس نے امام علیہ السلام کو زبردستی "مرو" لایا۔ اب امام علیہ السلام نے بھی اس کی طرف سے خلافت کی پیشکش کو تو قبول نہیں کیا لیکن دوسری طرف ان کے لئے کوئی چارہ بھی نہیں تھا لہذا انہوں نے حکومت میں کسی بھی قسم کی دخالت وغیرہ نہ کرنے جیسی شرائط کے ساتھ رسمی طور پر "اعزازی ولیعہدی" کو قبول کیا اور پھر اس فرصت کو غنیمت جانتے ہوئے ملتِ تشیع کی بہبود کے لئے اقدامات انجام دئے۔

سنہ 200ہجری کے رمضان المبارک کے مہینے سے لے کر کہ جب امام رضا علیہ السلام نے مامون کی ولیعہدی کو قبول کیا، سنہ 203 ہجری میں آپ کی شہادت تک ایک ایسا ماحول پیدا ہوا جواہلِ تشیع کے لئے بنی عباس کی خلافت کے آغاز سے لے کر غیبتِ صغریٰ تک غیر معمولی دور تھا۔ اس دور میں شعائرِ شیعہ علنی ہونا شروع ہوئے اور فضائلِ اہل بیت علیہم السلام کھلے عام بیان ہونے لگے کہ جو اب تک ممنوع تھے اور اسی طرح علویوں کی آمد و رفت بھی کافی حد تک آزاد ہو گئی تھی وغیرہ۔

انہی دو سالوں میں کہ جب ایسی فضا بن چکی تھی حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کا سفر بھی انجام پاتا ہے۔ اب توجہ رہے کہ جب امام رضا علیہ السلام مدینہ سے مرو کی طرف سفر شروع کرتے ہیں تو اپنے پورے خاندان کو جمع کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ" اب تم میں سے کوئی مجھے دوبارہ نہیں دیکھ پائے گا"۔ لہذا اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ اہل بیت جانتے تھے کہ وہ دوبارہ کبھی امام رضا علیہ السلام کو نہیں دیکھ سکیں گے تو اب کسی کا امام علیہ السلام کی ملاقات کے لئے جانا منطقی نہیں لگتا ہے۔

نیز اہل بیت کی بیٹیاں و خواتین روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سفرِ حج کے علاوہ زیادہ گھر سے باہر نہیں نکلتی تھیں۔ پوری تاریخ میں ہمیں کہیں یہ نہیں ملتا کہ اہل بیت کی بیٹیوں میں سے کسی نے کسی سے ملنے کے لیے طویل سفر کیا ہو۔ سوائے اس کے کہ وہ اپنے شریکِ حیات کے ساتھ کی وجہ سے سفر میں گئی ہوں یا کسی کی دعوت پر یا انہیں بزرگوں کی طرف سے ایک جگہ سفر کرنے کی تاکید کی گئی ہو۔

امام جواد علیہ السلام کی بیٹی جناب حکیمہ خاتون کی شادی ہوئی اور وہ اپنے شوہر کے ساتھ مدینہ سے سامرہ منتقل ہوئیں۔ اس کے علاوہ اہل بیت کی بیٹیوں میں سے کسی نے بھی ایسا سفر نہیں کیا۔ تو اب اگر کہیں کہ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا نے اپنے بھائی سے ملاقات کی خاطر رختِ سفر باندھا ہے تو یہ بات اتنی مستند نہیں ہے چونکہ جب آپ سلام اللہ علیہا جانتی ہیں کہ امام علیہ السلام کے فرمان کے مطابق وہ دوبارہ ان سے نہ مل پائیں گی تو پھر اس غرض سے یہ سفر اب منطقی نہیں رہتا ہے۔

شہر قم کے بارے میں سب سے اہم روایت امام صادق علیہ السلام سے ہے۔ جس میں شہر قم اور اس کے مستقبل کے بارے میں ان کی پیشین گوئی کی گئی ہے۔

شہر قم کہ جس کے پس منظر کے بیان کے ساتھ میں نے عرض کیا ہے، ایران میں ایک خالص شیعہ مرکز بننے کی طرف اپنی تبدیلی کا آغاز کر چکا تھا لیکن اسے ان عناصر کے سلسلہ میں اپنی شناخت کی ضرورت تھی۔

امام صادق علیہ السلام کی یہ روایت بنی امیہ کے دورانِ اواخر اور بنی عباس کے اوائل میں یعنی 130 سے 140 ہجری کے دوران میں بیان کی گئی ہے لیکن شہر قم کو ابھی تک ضروری صلاحیت حاصل نہیں ہوئی ہے اور امام 80 سالہ دورانیہ کو مشاہدہ کر رہے ہیں اور قم کو ایک جہت اور ایسے تیز ترین عنصر کی ضرورت ہے جو اسے اپنی شناخت دے اور وہ اپنے اندر حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کے وجودِ مبارک کے قیام کی صلاحیت پیدا کر سکے۔

اس بحث کی بنیاد کہ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا اپنے بھائی کی ملاقات کے لیے تشریف لائی تھیں، علامہ مجلسی کی بحار الانوار سے ملتی ہے۔ انہوں نے گمان کیا ہے کہ وہ اس راستے سے اپنے بھائی سے ملنے آئی تھیں اور چاہتی تھیں کہ اس راستے سے خراسان کی طرف جائیں۔

حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا مغرب سے ایران آتی ہیں اور وہ ساوہ میں مریض ہو جاتی ہیں اور فرماتی ہیں کہ "مجھے قم لے جاؤ"۔ حالانکہ اگر کوئی ایران کے شہر ساوہ سے خراسان جانا چاہتا ہے تو اسے رے اور تہران جانا چاہئے نہ کہ قم آکر اپنا سفر کو مزید طولانی کرے اور پھر یہاں سے تہران جائے۔ خاص طور پر جب کہ قم کے بعد کا سارا راستہ صحرا تھا اور اس وقت یہ راستہ خراسان جانے کے لئے قطعا بھی مناسب نہیں سمجھا جاتا تھا لیکن باوجود اس کے حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا فرماتی ہیں کہ مجھے "قم لے چلو" تو میری نظر یہ ہے کہ ان کے سفر کا مقصد ہی دراصل قم تھا۔

کیا حضرت فاطمہ معصومہ (س) نے امام رضا (ع) کی وجہ سے ایران کا سفر کیا تھا؟

کیا حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا شہید ہوئیں یا ان کا انتقال ہوا؟

اس سوال کے جواب میں حجت الاسلام محمد رضایی آدریانی کا کہنا تھا کہ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کا شہید نہ ہونا اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ چونکہ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کا یہ سفر امام رضا علیہ السلام کے دو سالہ ولیعہدی کے دور میں انجام پایا تھا اور اس دوران کسی قسم کی کوئی قتل و غارت نہیں ہوئی تھی۔ تو اب یہاں آپ سلام اللہ علیہا کے لیے ظلم و ستم پیدا کرنے کے بجائے شہرِ قم کے مقام و منزلت کو بیان کرنے کی ضرورت ہے جو کہ آپ سلام اللہ علیہا کے وجودِ مبارک کی وجہ سے تہذیب و تمدن کی تعمیر کا سبب اور تعلیم و تربیت کا میدان بن گیا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .